سا ہی کچھ راولپنڈی کے علاقے واہ کینٹ کی ڈاکٹر رفعت سلطانہ کے ساتھ بھی ہوا
ڈاکٹر رفعت سلطانہ کا تعلق ایک تعلیم یافتہ اور اچھی تعلیم یافتہ گھرانے سے تھا۔ معاشی بہبود انسان کو بے لوثی کا احساس دلاتی ہے۔ رفعت سلطانہ کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ چنانچہ وہ لندن چلی گئیں اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر واپس آئیں
ا اپنی مادر وطن کی خدمت کے لئے وقف ، رفعت سلطانہ نے اپنے میدان میں اپنی پریکٹس کا آغاز کیا جہاں اسے ایک ساتھی ڈاکٹر سے محبت ہوگئی۔ وہ محبت کے لحاظ سے بھی خوش قسمت تھی اور جسے چاہتی تھیاس کو پا لیا
مگر تقدیر نے ان کی زندگی میں کچھ اور رکھا تھا شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ان پر یہ انکشاف ہوا کہ ان کا جیون ساتھی ان سے بے وفائی کر رہا ہے اور اس نے کسی اور سے شادی کر لی ہے بات صرف بے وفائی تک ہوتی تو شائد برداشت بھی ہو جاتی مگر ان کے ظالم شوہر نے اس کے ساتھ دھوکے سے ڈاکٹر رفعت سلطانہ کی ساری جائیداد بھی اپنے نام کروا کر ان کو گھر سے نکال دیاپے در پے ملنے والے صدموں نے ڈاکٹر رفعت سلطانہ کے حساس دل و دماغ کو بری طرح متاثر کیا وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھیں مگر خانداںی اقدار کو فراموش نہ کر پائيں واہ کینٹ کی گلیوں میں بھٹکتے ہوئے لوگوں نے انہیں کئی بار دیکھا سالوں تک انہوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا گلیوں کو بنا لیا جہاں پر ضرورت پر وہ گزرتے لوگوں سے اللہ کے نام پر ایک روپیہ مانگتیں یا پھر انگریزی میں کہتیں کہ پلیز گیو می ون روپی- اگر کوئی پانچ روپے دے دیتا تو اس کو روک کر چار روپے اس کو واپس کر دیتیں اور دینے والے سے صرف ایک ہی روپیہ لیتی...
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں